Bilal

بلال


چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا

حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی

تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے

کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے

جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں

ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں

نظر تھی صورت سلماں ادا شناس تری

شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری

تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا

اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا

مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا

ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا

تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید

خنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید

گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر

کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسی پر

تپش ز شعلہ گر فتند و بر دل تو زدند

چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند

ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری

کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی

نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

خوشا وہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا

خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس کا

Comments