Ek Gai aor Bakri

ايک گائے اور بکري

اک چراگہ ہري بھري تھي کہيں
تھي سراپا بہار جس کي زميں
کيا سماں اس بہار کا ہو بياں
ہر طرف صاف ندياں تھيں رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پيپل کے سايہ دار درخت
ٹھنڈي ٹھنڈي ہوائيں آتي تھيں
طائروں کي صدائيں آتي تھيں
کسي ندي کے پاس اک بکري
چرتے چرتے کہيں سے آ نکلي
جب ٹھہر کر ادھر ادھر ديکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پايا
پہلے جھک کر اسے سلام کيا
پھر سليقے سے يوں کلام کيا
کيوں بڑي بي! مزاج کيسے ہيں
گائے بولي کہ خير اچھے ہيں
کٹ رہي ہے بري بھلي اپني
ہے مصيبت ميں زندگي اپني
جان پر آ بني ہے ، کيا کہيے
اپني قسمت بري ہے ، کيا کہيے
ديکھتي ہوں خدا کي شان کو ميں
رو رہي ہوں بروں کي جان کو ميں
زور چلتا نہيں غريبوں کا
پيش آيا لکھا نصيبوں کا
آدمي سے کوئي بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے ، خدا نہ کرے
دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلي تو بيچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فريبوں سے رام کرتا ہے
اس کے بچوں کو پالتي ہوں ميں
دودھ سے جان ڈالتي ہوں ميں
بدلے نيکي کے يہ برائي ہے
ميرے اللہ! تري دہائي ہے
سن کے بکري يہ ماجرا سارا
بولي ، ايسا گلہ نہيں اچھا
بات سچي ہے بے مزا لگتي
ميں کہوں گي مگر خدا لگتي
يہ چراگہ ، يہ ٹھنڈي ٹھنڈي ہوا
يہ ہري گھاس اور يہ سايا
ايسي خوشياں ہميں نصيب کہاں
يہ کہاں ، بے زباں غريب کہاں!
يہ مزے آدمي کے دم سے ہيں
لطف سارے اسي کے دم سے ہيں
اس کے دم سے ہے اپني آبادي
قيد ہم کو بھلي ، کہ آزادي
سو طرح کا بنوں ميں ہے کھٹکا
واں کي گزران سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زيبا نہيں گلا اس کا
قدر آرام کي اگر سمجھو
آدمي کا کبھي گلہ نہ کرو
گائے سن کر يہ بات شرمائي
آدمي کے گلے سے پچھتائي
دل ميں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے

يوں تو چھوٹي ہے ذات بکري کي
دل کو لگتي ہے بات بکري کي 

Comments