Kinar rawi

کنار راوی


سکوت شام میں محو سرود ہے راوی

نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی

پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ کو

جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو

سر کنارۂ آب رواں کھڑا ہوں میں

خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں

شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام

لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام

عدم کو قافلۂ روز تیز گام چلا

شفق نہیں ہے ، یہ سورج کے پھول ہیں گویا

کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی

منار خواب گہ شہسوار چغتائی

فسانۂ ستم انقلاب ہے یہ محل

کوئی زمان سلف کی کتاب ہے یہ محل

مقام کیا ہے سرود خموش ہے گویا

شجر ، یہ انجمن بے خروش ہے گویا

رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز

ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز

سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی

نکل کے حلقۂ حد نظر سے دور گئی

جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہی

ابد کے بحر میں پیدا یونہی ، نہاں ہے یونہی

شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا

نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

Comments