Mah Nu

ماہ نو


ٹوٹ کر خورشيد کي کشتي ہوئي غرقاب نيل
ايک ٹکڑا تيرتا پھرتا ہے روئے آب نيل
طشت گردوں ميں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب
نشتر قدرت نے کيا کھولي ہے فصد آفتاب
چرخ نے بالي چرا لي ہے عروس شام کي
نيل کے پاني ميں يا مچھلي ہے سيم خام کي
قافلہ تيرا رواں بے منت بانگ درا
گوش انساں سن نہيں سکتا تري آواز پا
گھٹنے بڑھنے کا سماں آنکھوں کو دکھلاتا ہے تو
ہے وطن تيرا کدھر ، کس ديس کو جاتا ہے تو
ساتھ اے سيارہء ثابت نما لے چل مجھے
خار حسرت کي خلش رکھتي ہے اب بے کل مجھے
نور کا طالب ہوں ، گھبراتا ہوں اس بستي ميں ميں
طفلک سيماب پا ہوں مکتب ہستي ميں ميں

Comments