حصہ اول
ميري نوائے شوق سے شور حريم ذات ميں
اگر کج رو ہيں انجم ، آسماں تيرا ہے يا ميرا
گيسوئے تاب دار کو اور بھي تاب دار کر
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مري فرياد
کيا عشق ايک زندگي مستعار کا
پريشاں ہوکے ميري خاک آخر دل نہ بن جائے
دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کي گردش تيز ہے ساقي
لا پھر اک بار وہي بادہ و جام اے ساقي
مٹا ديا مرے ساقي نے عالم من و تو
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندي
تجھے ياد کيا نہيں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز
وہي ميري کم نصيبي ، وہي تيري بے نيازي
اپني جولاں گاہ زير آسماں سمجھا تھا ميں
اک دانش نوراني ، اک دانش برہاني
يارب! يہ جہان گزراں خوب ہے ليکن
حصہ دوم
سما سکتا نہيں پہنائے فطرت ميں مرا سودا
يہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگيز
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گيا ہے جنوں
عالم آب و خاک و باد! سر عياں ہے تو کہ ميں
تو ابھي رہ گزر ميں ہے ، قيد مقام سے گزر
امين راز ہے مردان حر کي درويشي
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مسلماں کے لہو ميں ہے سليقہ دل نوازي کا
عشق سے پيدا نوائے زندگي ميں زير و بم
دل سوز سے خالي ہے ، نگہ پاک نہيں ہے
ہزار خوف ہو ليکن زباں ہو دل کي رفيق
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کي گواہي
يہ حوريان فرنگي ، دل و نظر کا حجاب
دل بيدار فاروقي ، دل بيدار کراري
خودي کي شوخي و تندي ميں کبر و ناز نہيں
مير سپاہ ناسزا ، لشکرياں شکستہ صف
زمستاني ہوا ميں گرچہ تھي شمشير کي تيزي
يہ دير کہن کيا ہے ، انبار خس و خاشاک
کمال ترک نہيں آب و گل سے مہجوري
عقل گو آستاں سے دور نہيں
خودي وہ بحر ہے جس کا کوئي کنارہ نہيں
يہ پيام دے گئي ہے مجھے باد صبح گاہي
تري نگاہ فرومايہ ، ہاتھ ہے کوتاہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں
نگاہ فقر ميں شان سکندري کيا ہے
نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے
تو اے اسير مکاں! لامکاں سے دور نہيں
خرد نے مجھ کو عطا کي نظر حکيمانہ
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ہر شے مسافر ، ہر چيز راہي
ہر چيز ہے محو خود نمائي
اعجاز ہے کسي کا يا گردش زمانہ
خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميري ابتدا کيا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہي
مجھے آہ و فغان نيم شب کا پھر پيام آيا
نہ ہو طغيان مشتاقي تو ميں رہتا نہيں باقي
فطرت کو خرد کے روبرو کر
يہ پيران کليسا و حرم ، اے وائے مجبوري
تازہ پھر دانش حاضر نے کيا سحر قديم
ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام
خودي ہو علم سے محکم تو غيرت جبريل
مکتبوں ميں کہيں رعنائي افکار بھي ہے؟
حادثہ وہ جو ابھي پردہ افلاک ميں ہے
رہا نہ حلقہ صوفي ميں سوز مشتاقي
ہوا نہ زور سے اس کے کوئي گريباں چاک
يوں ہاتھ نہيں آتا وہ گوہر يک دانہ
نہ تخت و تاج ميں ، نے لشکر و سپاہ ميں ہے
فطرت نے نہ بخشا مجھے انديشہ چالاک
کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد
کي حق سے فرشتوں نے اقبال کي غمازي
نے مہرہ باقي ، نے مہرہ بازي
گرم فغاں ہے جرس ، اٹھ کہ گيا قافلہ
مري نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامي
ہر اک مقام سے آگے گزر گيا مہ نو
کھو نہ جا اس سحروشام ميں اے صاحب ہوش
تھا جہاں مدرسہ شيري و شاہنشاہي
ہے ياد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ
فقر کے ہيں معجزات تاج و سرير و سپاہ
کمال جوش جنوں ميں رہا ميں گرم طواف
شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجيب
قطعہ انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے
رباعيات
رہ و رسم حرم نا محرمانہ
ظلام بحر ميں کھو کر سنبھل جا
مکاني ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
خودي کي خلوتوں ميں گم رہا ميں
پريشاں کاروبار آشنائي
يقيں ، مثل خليل آتش نشيني
عرب کے سوز ميں ساز عجم ہے
کوئي ديکھے تو ميري نے نوازي
ہر اک ذرے ميں ہے شايد مکيں دل
ترا انديشہ افلاکي نہيں ہے
نہ مومن ہے نہ مومن کي اميري
خودي کي جلوتوں ميں مصطفائي
نگہ الجھي ہوئي ہے رنگ و بو ميں
جمال عشق و مستي نے نوازي
وہ ميرا رونق محفل کہاں ہے
سوار ناقہ و محمل نہيں ميں
ترے سينے ميں دم ہے ، دل نہيں ہے
ترا جوہر ہے نوري ، پاک ہے تو
محبت کا جنوں باقي نہيں ہے
خودي کے زور سے دنيا پہ چھا جا
چمن ميں رخت گل شبنم سے تر ہے
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
جوانوں کو مري آہ سحر دے
تري دنيا جہان مرغ و ماہي
کرم تيرا کہ بے جوہر نہيں ميں
وہي اصل مکان و لامکاں ہے
کبھي آوارہ و بے خانماں عشق
کبھي تنہائي کوہ و دمن عشق
عطا اسلاف کا جذب دروں کر
يہ نکتہ ميں نے سيکھا بوالحسن سے
خرد واقف نہيں ہے نيک و بد سے
خدائي اہتمام خشک و تر ہے
يہي آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
دم عارف نسيم صبح دم ہے
رگوں ميں وہ لہو باقي نہيں ہے
کھلے جاتے ہيں اسرار نہاني
زمانے کي يہ گردش جاودانہ
حکيمي ، نامسلماني خودي کي
ترا تن روح سے ناآشنا ہے
قطعہ اقبال نے کل اہل خياباں کو سنايا
منظو ما ت
دعا
مسجد قرطبہ
قيد خانے ميں معتمدکي فرياد
عبد الرحمن اول کا بويا ہوا کھجور کا پہلا درخت سرزمين اندلس ميں
ہسپانيہ
طارق کي دعا
لينن ( خدا کے حضور ميں)
فرشتوں کاگيت
ذوق و شوق
پروانہ اور جگنو
جاويد کے نام
گدائي
ملااور بہشت
دين وسياست
الارض للہ
ايک نوجوان کے نام
نصيحت
لالہ صحرا
ساقي نامہ
زمانہ
فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہيں
روح ارضي آدم کا استقبال کرتي ہے
پيرو مريد
جبريل وابليس
اذان
محبت
ستارے کاپيغام
جاويد کے نام
فلسفہ ومذہب
يورپ سے ايک خط
نپولين کے مزار پر
مسوليني
سوال
پنچاب کے دہقان سے
نادر شاہ افغان
خوشحال خاں کي وصيت
تاتاري کا خواب
حال ومقام
ابوالعلامعري
سنيما
پنچاب کے پيرزادوں سے
سياست
فقر
خودي
جدائي
خانقاہ
ابليس کي عرضداشت
لہو
پرواز
شيخ مکتب سے
فلسفي
شاہيں
باغي مريد
ہارون کي آخري نصيحت
ماہر نفسيات سے
يورپ
آزادي افکار
شير اور خچر
چيونٹي اورعقاب
قطعہ فطرت مري مانند نسيم سحري ہے
قطعہ کل اپنے مريدوں سے کہا پير مغاں نے
ميري نوائے شوق سے شور حريم ذات ميں
اگر کج رو ہيں انجم ، آسماں تيرا ہے يا ميرا
گيسوئے تاب دار کو اور بھي تاب دار کر
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مري فرياد
کيا عشق ايک زندگي مستعار کا
پريشاں ہوکے ميري خاک آخر دل نہ بن جائے
دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کي گردش تيز ہے ساقي
لا پھر اک بار وہي بادہ و جام اے ساقي
مٹا ديا مرے ساقي نے عالم من و تو
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندي
تجھے ياد کيا نہيں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
ضمير لالہ مے لعل سے ہوا لبريز
وہي ميري کم نصيبي ، وہي تيري بے نيازي
اپني جولاں گاہ زير آسماں سمجھا تھا ميں
اک دانش نوراني ، اک دانش برہاني
يارب! يہ جہان گزراں خوب ہے ليکن
حصہ دوم
سما سکتا نہيں پہنائے فطرت ميں مرا سودا
يہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگيز
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گيا ہے جنوں
عالم آب و خاک و باد! سر عياں ہے تو کہ ميں
تو ابھي رہ گزر ميں ہے ، قيد مقام سے گزر
امين راز ہے مردان حر کي درويشي
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مسلماں کے لہو ميں ہے سليقہ دل نوازي کا
عشق سے پيدا نوائے زندگي ميں زير و بم
دل سوز سے خالي ہے ، نگہ پاک نہيں ہے
ہزار خوف ہو ليکن زباں ہو دل کي رفيق
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کي گواہي
يہ حوريان فرنگي ، دل و نظر کا حجاب
دل بيدار فاروقي ، دل بيدار کراري
خودي کي شوخي و تندي ميں کبر و ناز نہيں
مير سپاہ ناسزا ، لشکرياں شکستہ صف
زمستاني ہوا ميں گرچہ تھي شمشير کي تيزي
يہ دير کہن کيا ہے ، انبار خس و خاشاک
کمال ترک نہيں آب و گل سے مہجوري
عقل گو آستاں سے دور نہيں
خودي وہ بحر ہے جس کا کوئي کنارہ نہيں
يہ پيام دے گئي ہے مجھے باد صبح گاہي
تري نگاہ فرومايہ ، ہاتھ ہے کوتاہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہيں
نگاہ فقر ميں شان سکندري کيا ہے
نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے
تو اے اسير مکاں! لامکاں سے دور نہيں
خرد نے مجھ کو عطا کي نظر حکيمانہ
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ہر شے مسافر ، ہر چيز راہي
ہر چيز ہے محو خود نمائي
اعجاز ہے کسي کا يا گردش زمانہ
خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميري ابتدا کيا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہي
مجھے آہ و فغان نيم شب کا پھر پيام آيا
نہ ہو طغيان مشتاقي تو ميں رہتا نہيں باقي
فطرت کو خرد کے روبرو کر
يہ پيران کليسا و حرم ، اے وائے مجبوري
تازہ پھر دانش حاضر نے کيا سحر قديم
ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عيش جہاں کا دوام
خودي ہو علم سے محکم تو غيرت جبريل
مکتبوں ميں کہيں رعنائي افکار بھي ہے؟
حادثہ وہ جو ابھي پردہ افلاک ميں ہے
رہا نہ حلقہ صوفي ميں سوز مشتاقي
ہوا نہ زور سے اس کے کوئي گريباں چاک
يوں ہاتھ نہيں آتا وہ گوہر يک دانہ
نہ تخت و تاج ميں ، نے لشکر و سپاہ ميں ہے
فطرت نے نہ بخشا مجھے انديشہ چالاک
کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد
کي حق سے فرشتوں نے اقبال کي غمازي
نے مہرہ باقي ، نے مہرہ بازي
گرم فغاں ہے جرس ، اٹھ کہ گيا قافلہ
مري نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامي
ہر اک مقام سے آگے گزر گيا مہ نو
کھو نہ جا اس سحروشام ميں اے صاحب ہوش
تھا جہاں مدرسہ شيري و شاہنشاہي
ہے ياد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ
فقر کے ہيں معجزات تاج و سرير و سپاہ
کمال جوش جنوں ميں رہا ميں گرم طواف
شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجيب
قطعہ انداز بياں گرچہ بہت شوخ نہيں ہے
رباعيات
رہ و رسم حرم نا محرمانہ
ظلام بحر ميں کھو کر سنبھل جا
مکاني ہوں کہ آزاد مکاں ہوں
خودي کي خلوتوں ميں گم رہا ميں
پريشاں کاروبار آشنائي
يقيں ، مثل خليل آتش نشيني
عرب کے سوز ميں ساز عجم ہے
کوئي ديکھے تو ميري نے نوازي
ہر اک ذرے ميں ہے شايد مکيں دل
ترا انديشہ افلاکي نہيں ہے
نہ مومن ہے نہ مومن کي اميري
خودي کي جلوتوں ميں مصطفائي
نگہ الجھي ہوئي ہے رنگ و بو ميں
جمال عشق و مستي نے نوازي
وہ ميرا رونق محفل کہاں ہے
سوار ناقہ و محمل نہيں ميں
ترے سينے ميں دم ہے ، دل نہيں ہے
ترا جوہر ہے نوري ، پاک ہے تو
محبت کا جنوں باقي نہيں ہے
خودي کے زور سے دنيا پہ چھا جا
چمن ميں رخت گل شبنم سے تر ہے
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
جوانوں کو مري آہ سحر دے
تري دنيا جہان مرغ و ماہي
کرم تيرا کہ بے جوہر نہيں ميں
وہي اصل مکان و لامکاں ہے
کبھي آوارہ و بے خانماں عشق
کبھي تنہائي کوہ و دمن عشق
عطا اسلاف کا جذب دروں کر
يہ نکتہ ميں نے سيکھا بوالحسن سے
خرد واقف نہيں ہے نيک و بد سے
خدائي اہتمام خشک و تر ہے
يہي آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
دم عارف نسيم صبح دم ہے
رگوں ميں وہ لہو باقي نہيں ہے
کھلے جاتے ہيں اسرار نہاني
زمانے کي يہ گردش جاودانہ
حکيمي ، نامسلماني خودي کي
ترا تن روح سے ناآشنا ہے
قطعہ اقبال نے کل اہل خياباں کو سنايا
منظو ما ت
دعا
مسجد قرطبہ
قيد خانے ميں معتمدکي فرياد
عبد الرحمن اول کا بويا ہوا کھجور کا پہلا درخت سرزمين اندلس ميں
ہسپانيہ
طارق کي دعا
لينن ( خدا کے حضور ميں)
فرشتوں کاگيت
ذوق و شوق
پروانہ اور جگنو
جاويد کے نام
گدائي
ملااور بہشت
دين وسياست
الارض للہ
ايک نوجوان کے نام
نصيحت
لالہ صحرا
ساقي نامہ
زمانہ
فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہيں
روح ارضي آدم کا استقبال کرتي ہے
پيرو مريد
جبريل وابليس
اذان
محبت
ستارے کاپيغام
جاويد کے نام
فلسفہ ومذہب
يورپ سے ايک خط
نپولين کے مزار پر
مسوليني
سوال
پنچاب کے دہقان سے
نادر شاہ افغان
خوشحال خاں کي وصيت
تاتاري کا خواب
حال ومقام
ابوالعلامعري
سنيما
پنچاب کے پيرزادوں سے
سياست
فقر
خودي
جدائي
خانقاہ
ابليس کي عرضداشت
لہو
پرواز
شيخ مکتب سے
فلسفي
شاہيں
باغي مريد
ہارون کي آخري نصيحت
ماہر نفسيات سے
يورپ
آزادي افکار
شير اور خچر
چيونٹي اورعقاب
قطعہ فطرت مري مانند نسيم سحري ہے
قطعہ کل اپنے مريدوں سے کہا پير مغاں نے
Comments
Post a Comment
thanks